کرشن چندر

لاریوں میں بھی سماجی زندگی کی طرح تین درجے ہوتے ہیں۔ ’’فرسٹ‘‘، ’’سیکنڈ‘‘ اور’’ پبلک‘‘ یعنی اُمرا، شرفا اور عامی۔ یُوں تو ہماری سماجی زندگی کی طرح لاری بھی ساری کی ساری گندی ہوتی ہے، غلاظت سے معمور، گردوغبار اور پٹرول کی خطرناک بُو سے بھرپور، لیکن اس گندی اور غلیظ دنیا میں بھی لوگ تین چوبی تختے آرپار ڈال کر اُس میں جماعتی امتیاز پَیدا کر لیتے ہیں اور چند ٹکے زیادہ دے کر ایک ذلیل سے احساس برتری کے زیِرسایہ اپنے دل کو تسکین بہم پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ میں نے بھی یہی کیا اور کشمیر جانے والی لاری کے دوسرے درجے میں اپنے لیے جگہ مخصوص کرالی، میں دراصل کھڑکی کے سامنے بیٹھنا چاہتا تھا۔ تاکہ لاری کی غلیظ دنیا میں رہتے ہوئے بھی باہر کی خوشگوار ہوا کے مزے لے سکوں۔ اس فریبِ نفس کو پُورا کرنے کے لیے میں نے ایک اور فریب سے کا م لیا۔ کیونکہ کھڑکی والی جگہ ایک سانولے رنگ کے کرسچین پولیس سارجنٹ کے لیے ریزروہوچکی تھی، اور مجھے کھڑکی کے قریب ضرور بیٹھنا تھا۔ چنانچہ میں نے پان والے کے دکان سے دوپَیسے کی الائچی اور دو لیموں خرید کر جیب میں ڈال لیے، اور خود دوسرے درجے میں آکر اُسی کھڑکی والی جگہ پربُراسامنہ بنا کر بیٹھ گیا۔ حُسنِ اتفاق سے ابھی لاری کے چلنے میں چند منٹ باقی تھے اور سانولے رنگ کا لمبا تڑنکَا کرسچین پولیس سارجنٹ لاری سے نیچے اُتر کر کچھ فاصلے پر اپنے کسی دوست سے باتیں کرنے میں مشغول تھا۔ اس لیے وہ میری طرف متوجہ نہ ہو سکا۔ ہاں جب لاری چلنے لگی، تو اُس نے بکمالِ شرافت مجھے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ جانے کو کہا۔ میں جواب میں بکمالِ متانت اُسے الائچی کی پُڑیا اور دو لیموں دکھا دیئے، اور گُویا اسے اچھی طرح بتا دیا کہ اگر وہ مجھے کھڑکی میں بیٹھنے نہ دے گا تو میرے بار بار قے کرنے سے خود اُس کا جی بھی بُرا ہوگا۔ اور عین ممکن ہے کے اُس کے کپڑے بھی قےَ کی الائش سے نہ بچ سکیں۔ میرے جواب سے کرسچین سارجنٹ پُورا مطمئن تو نہ ہوا، لیکن بے بس ضرور ہو گیا اور میں یہی چاہتا تھا۔ کیونکہ اس زندگی میں طمانیت کسے نصیب ہے؟بے بسی چاہیے۔ کیونکہ پھر آدمی اپنی ساری تکلیفوں کے لیے کسی شقی القلب اور ظالم خدا کو ذمے دار ٹھہرا سکتے ہے۔ جس نے لاری میں قے کرنے والے آدمی بنائے تھے۔ کرسچین پولیس سارجنٹ کی یہ بے بسی چند لمحوں تک محدود رہی، کیونکہ اس کے بعد باتوں باتوں میں ہمیں پتہ چلا کہ ہم دونوں ایک زمانہ گزرا ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے۔ اس کے بعد وہ پہلی مغائرت جاتی رہی اور ہم جلد ہی اس لاری کی گندگی میں اسطرح گھُل مل گئے جس طرح سکھیاں غلاظت کے ڈھیر میں گڈ مڈ ہو جاتی ہیں۔
اِس طرح اطمینان حاصل کر کے میں نے لاری کے اندر چاروں طرف نظر دوڑائی۔ فرسٹ سیٹ پر یعنی اُمرا کے درجے میں ایک صاحب بہادربیٹھے ہوئے پائپ پی رہے تھے۔ ایلفرڈیا کیا نام تھا اور پائلٹ تھے اور اب چوبیس دن کی چھٹی لے کر کشمیر جا رہے تھے۔ ان کے پیچھے دوسرے درجوں کی اگلی نشستوں پر لاری کے مالک کے خاندان کی دُہری ٹھوڑی والی دو عورتریں بیٹھی تھیں۔ اُن کے ساتھ چار پانچ سال کی عُمر والے دو لڑکے تھے۔ دوسرے درجے کی پچھلی نشستوں پر میرے اور کرسچین پولیس سارجنٹ کے علاوہ ایک سردار صاحب بیٹھے تھے اور اُن کی بیوی… اور اُن کی چھوٹی لڑکی بھی۔ اور ہمارے پیچھے یعنی عامیوں کے درجے میں ’’پبلک‘‘ بیٹھی تھی۔ اس میں دو کسان، ایک بہرہ، دہری ٹھوڑی والی عورتوں کی نوکرانی، ایک کلیز، ایک دکاندارجسے سیالکوٹ جانا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کی عورت، گڑ کی بوریاں، مکھیاں، مسافروں کے اٹاچی کیس، تھرماس، سو نٹیاں، چھتریاں، وغیرہ وغیرہ۔ میں نے سوچا یہ لاری ہماری سماجی زندگی کی نمائندگی بالکل صحیح تناسب سے کرتی ہے۔ سب سے پیچھے کسان، کسان کے آگے بابو لوگ۔ اُن کے بعد سرمایہ دار، سرمایہ دار کے اُوپر انگریز۔ انہی بنیادوں پر ہندوستان کے موجودہ سماج کے اہرام بلند ہوئے تھے۔ لیکن ان اہرام کے نیچے کس کی قبر موجود تھی۔ شاید ہماری اُس زندگی کی، جسے ہم کبھی دوبارہ نہ زندہ کر سکیں گے، ان ممیوں میں اب کون رُوح پھُونک سکتا ہے۔
جنگ کی وجہ سے پٹرول کمیاب ہے، اس لیے لاری پٹرول اور اسپرٹ کی آمیزش سے چلائی جاتی ہے۔ لاری کو لاہور سے چھ بجے روانہ ہونا تھا۔ لیکن چھ بجے تک تو لاری کے مالک کی خاندان کی عورتیں بستروں سے اُٹھی تھیں۔ اس لیے لاری نو بجے روانہ ہوئی۔ انگریز ہَوا باز فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ہوا پیچ و تاب کھا تا رہا اور میں اور کرسچین پولیس سارجنٹ اس سرمایہ دارانہ ذہنیت کو بُرا بھلا کہتے رہے کی جس کی وجہ سے لاری تین گھنٹے دیر سے چلی۔ اُن دہری ٹھوڑی والی عورتوں نے بہت سے زیور پہن رکھے تھے۔ ان کی جلدکی رنگت زیتونی تھی، اور اسی طرح ملائم۔ رُخساروں پر سیب کی سی سُرخی، آنکھوں میں خمار اور پلکوں کے گنجان سائے پر کاجل کی لکیر کا دھوکا ہوتا تھا۔ اس کے بازوؤں کا گداز پن کبھی کبھی کرسچین سارجنٹ کو اس قدر متوجہ کر لیتا تھا کہ اس کی آنکھوں میں ایک گرسنہ چمک پیدا ہو جا تی اور اس کے موٹے موٹے ہونٹ کُھل کر باہر لٹکنے لگتے۔ دوسری عورت شلوار کو ٹخنوں کے اُوپر کیے ڈرائیور کی سیٹ سے پاؤں لٹکائے بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھیں تو اچھی نہ تھیں۔ ہاں دانت بہت اچھے تھے۔ وہ بار بار ہنستی تھی۔ یا ہر وقت مسکراتی رہتی تھی۔ پہلے پہل تو وہ مجھے بہت پیاری معلوم ہوئی۔ لیکن کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد مجھے معلوم ہُواکہ یہ مسکراہٹ دوامی تھی۔ کسی انگریزی صابون کے اشتہار کی طرح آپ نے اکثر اُس عورت کو دیکھا ہو گا۔ جو بڑے بڑے شہروں کی دیواروں پر چسپاں ہمیشہ مُسکراتی نظر آتی ہے، اور جس کے نیچے لکھا ہوتا ہے:’’ہمیشہ لکس صابون استعمال کیجئے۔‘‘ایسی عورت ہمیشہ دُورسے اچھی لگتی ہے۔ اور تھوڑا عرصہ گذ ر جانے پر اس کی مسکراہٹ دل پر گراں گزرنے لگتی ہے۔ ایسی عورت کو آپ دُور سے دیکھ سکتے ہیں اس سے محبت نہیں کر سکتے۔ بھلا کوئی آدمی ایک ایسے اشتہار سے کیسے محبت کر سکتا جو ہمیشہ مسکراتا ہُوا نظر آئے۔ میں نے دل ہی دل میں اُس عورت کے خاوند کو سراہا۔ جو ہر روز نہایت صبرواستقلال سے اس عورت کی مسکراہٹ کو برداشت کرتا تھا۔ یقینًاایسے مردکا مرتبہ غازی اور قومی شہید سے بھی بلند و ارفع ہے۔ ان دہری ٹھوڑی والی عورتوں کے ساتھ جو دو چھوٹے چھوٹے لڑکے تھے انہیں بھی اس بات کا احساس تھا کہ یہ لاری اُن کی ہے۔ یہ ڈرائیور یہ کلینر اُن کے ہیں۔ وہ جب چاہیں لاری ٹھہرا سکتے ہیں۔ ڈرائیور اور کلینرکو جب چاہیں کان سے پکڑ کر باہر نکال سکتے ہیں۔ لاری کے مسافروں کو بیجا تنگ کر سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ ہمیں بار بار پریشان کرتے تھے اور بڑی عورت سُرخ رخساروں والی، اپنے کان میں پڑے ہُوئے طلائی آویزوں کو ہلا کر کہتی معاف کرنا۔ یہ لڑکا بڑا شریر ہے۔ ہے نا۔ دراصل یہ لالہ جی کا پوتا ہے۔ سب سے بڑا پوتا اس لیے سارے خاندان میں اس کا حکم چلتاہے۔ شاید اس عورت نے ہمیں بھی اپنے خاندان کے غریب افراد متصور کر لیا تھا۔ اور دوسری عورت بے وجہ مسکرا کر کہتی، ہائے بھب جی(بھابھی جی کا مخفف)میرا جی چاہتا ہے کہ کشمیر پہنچ کر کڑم کا ساگ کھاؤں۔ اے رام جب ہم کُد پہنچیں تو مجھے یاد دلانا میں کُد سے کڑم کا ساگ خرید لُوں گی۔ ہائے بھب جی۔ کُڑم کا ساگ!اور پھر وہ اپنے لبوں سے ایک ہَوا ئی چٹکی لے کردونوں ہاتھ جوڑ کر اپنے ننگے ٹخنوں پر رکھ لیتی۔ اس طرح کہ میرا جی بے اختیار چاہتا کہ اُس کی موٹی گردن کو اپنے دونوں ہاتھوں لے کراِس طرح مروڑوں کہ نہ بھب جی رہیں نہ یہ کڑم کا ساگ۔ بڑی عورت کہتی، ساوتری!تجھے معلوم ہے لالہ جی نے کشمیر کی ساری سڑک کا ٹھیکہ لے لیا ہے، تین لاکھ روپے کا نفع ہو گا…یہ کہتے کہتے اُس کی دہری ٹھوڑی پر اور شِکن پڑ گئے اور اس نے کن انکھیوں سے ہماری طرف دیکھا اور پھر پیچھے، اپنی نوکرانی کو آواز دے کر کہنے لگی۔ ذرا ننھے کے لیے دودھ اور گلوکوس ڈی بوتل میں رکھنا، اور دیکھنا چُوسنی بالکل صاف ہو۔ تب مجھے معلوم ہُوا کہ اُس نے اپنی رانوں کے درمیان ڈوپٹے کے نیچے لالہ جی کے ایک اور پوتے کو بھی دبا رکھا ہے۔ ایک اور ننھّے سے سانپ کو، یہ بڑا پیارا خوبصورت بچہ تھا۔ جیسے سبھی ننھے سانپ ہوتے ہیں، اور جب اُس گلابی پپوٹوں والی عورت نے اُس ننھے سے بچے کو میری طرف بڑھا کر کہا، ذرا اسے ہماری نوکرانی کو دے دیجئے۔ تب مجھے پورا یقین ہو گیا کی میں واقعی لالہ جی کے خاندان کا غریب فرد تھا نہ کہ لاری میں بیٹھا ہوا ایک آزاد مسافر، جس نے اپنی جگہ دوسرے درجے میں روپے دے کر حاصل کی تھی۔
یہ سڑک جس پر لاری جا رہی تھی لاہور سے گوجرانوالہ اور گوجرانوالہ سے سیالکوٹ اور سیالکوٹ سے جمّوں کی طرف جا تی تھی۔ گوجرانوالہ پہنچ کر یہ لاری چند لمحوں کے لیے رُکی۔ اور اس میں پبلک کے درجے میں دو پولیس کے سپاہی داخل ہوئے۔ اُن کے ساتھ ایک کھدر پوش ملزم بھی تھا۔ غالبًاکوئی سیاسی قیدی یا اسی قسم کا آوارہ مزاج کسر پھرا، میں نے لاری سے اُتر کر تھوڑے سے آم خریدے اور ایک چاقو کہ جس کا پھل بہت تیز تھا، اور جس کے دستے پر سیپ لگا تھا۔ کرسچین سارجنٹ نے تھرماس کھول کر برفیلا پانی پیا، اور صاحب بہادر نے بیرے کو آواز دی کہ وہ انہیں بازار سے بسکٹوں کا ایک ڈبّہ خرید کے لا دے۔ بیرے نے اپنے طّرے کو اور بھی بلند کیا اور اپنی قمیض کے سخت کالروں کو جن کی اندر کوئی ٹائی موجود نہ تھی، سہلاتا ہوا بازار کی طرف چل دیا۔
بس والوں کے ایجنٹوں نے آکر مالکنوں کو سلام کیا، ’’کھانا کھا لیجئے۔‘‘ڈرائیور بولا’’بی بی جی شربت منگواؤں۔‘‘حلوائی بولا۔ ’’ تازہ پکوڑیا ں ہیں۔‘‘ایک خوانچہ فروش کچّا ناریل لگائے آگے بڑھ آیا۔ ہمیشہ مسکرانے والی عورت بولی۔ ’’ہائے بھب جی، میرا جی چاہتا کہ کچّا ناریل کھاؤں۔ ایک دفعہ جب میں جمّوں گئی تو مجھے وہاں کچّا ناریل کھانے کو نہ ملا۔ ہائے بھب جی۔ میرا جی بار بار چاہتا ہے کہ کہیں سے کچّا ناریل مل جائے اور اُسے میں کھا جاؤں۔ اس ناریل کا کیا بھاؤ ہے۔ ’’چار آنے پاؤ۔‘‘’’رام رام۔ تُو تو لوٹتا ہے۔ دو آنے سیر دے گا۔‘‘’’نہیں بی بی جی۔‘‘ ’’اچھا دو آنے کا دے دے۔‘‘ایک بوڑھا کاغذ کی ننھّی ننھّی چڑیاں بیچ رہا تھا۔ جو ربڑ کی ڈوریوں کے سہارے بار بار پھُدکتی تھیں۔ ننھّے لڑکوں کویہ چڑیا ں بہت پسند آئیں۔ انہوں نے بوڑھے سے تین چار لے کر اپنے پاس رکھ لیں اور انہیں ہلا ہلا کر ہوامیں لہرانے لگے۔ بھب جی کی نند کچّا ناریل کھا رہی تھی اور اُس کے ہونٹوں سے کَر کَر کی کراہت آمیز آواز پیداہو رہی تھی، اور میرا جی چاہا کہ اس عورت کو کچّے ناریل کی طرح چبا جاؤں، تاکہ یہ کَر کَر کی آواز تو نہ پَیدا ہو۔ لیکن…پھر خیال آیا کہ مُوسٰی بے وطن ہو جا ئے گا….اتنے میں لاری چلنے لگی، بوڑھا چلانے لگا۔ ’’ میرے تین پیسے۔ ان لڑکوں نے تیں چڑیاں‘‘…لیکن لاری بہت آگے جا چکی تھی۔
کھّدر پوش آدمی بکواس کرنے لگا۔ یہ اسی طرح غریبوں کو لوٹتے ہیں ایک پیسہ، ایک ایک پیسہ کر کے، اُن کے خُون کے قطرے جمع کرتے ہیں اور اور پھر اسی خون کو اپنی بیویوں کے زرد رخسا روں میں ڈال دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے تو ہمارے کسانوں کی بیویاں پچیس برس کی عمر میں بو ڑھی ہو جاتی ہیں اور یہ لالہ جی کے خاندان کی عورتیں چالیس برس گزر جا نے پر بھی اسی طرح سیب کی طرح سُرخ رہتی ہیں۔ ڈرائیور نے گاڑی ٹھہرا لی، اور بولا۔ اے پولیس کے سپاہیو!اپنے اس ملزم کے حواس درست کرو۔ ورنہ میں گاڑی سے نیچے اُتا ر دوں گا۔
بھب جی بولیں۔ نہایت متین آواز میں۔ ’’سیالکوٹ آلینے دو۔ وہا ں لالہ جی کے پھوپھا کیپٹن جیا رام بھچندہ رہتے ہیں… مزاج خود بخود درست ہو جا ئے گا۔‘‘پھر وہ ساوتری سے باتیں کرنے میں مشغول ہو گئیں۔ ’’یہ پھوپھا پہلے صرف جمعہ دار تھے۔ ڈیڑھ سو روپے تنخواہ پاتے تھے، یا شاید اس سے بھی کم اور اب کیپٹن، پر بڑا کمینہ ہے یہ بھی۔ ایک دفعہ لالہ جی کو کچھ روپے کی ضرورت پڑی۔ اُس نے صاف انکار کر دیا۔ لیکن ہمارا رشتہ دار ہے۔ میرا خیا ل ہے ساوتری کہ جب لاری سیالکوٹ میں سے گذرے تو ہم ذرا ایک آدھ گھنٹے کے لیے اُن کے ہاں سے ہو آئیں۔‘‘
کھّدر پوش قیدی بولا۔ میں یہ گاڑی کہیں ٹھہرنے نہ دوں گا۔ یہ کیا مذاق ہے۔
ایک پولیس کے سپاہی نے اُسے ایک زبردست ٹھوکا دیا۔ ’’اپنی بکواس بندکرو۔ تم کون ہو، نہ تین میں نہ تیرہ میں۔‘‘رام سنگھ ڈرائیور نے لاری کی رفتار تیز کر دی۔ گاڑی تیزی سے سیالکوٹ کی طرف بھاگی جا رہی تھی۔ نیم کی چھدری چھدری چھاؤں میں کہیں کہیں کالی بھینسیں جگالی کرتی ہُوئیں نظر آجاتیں، ان کی آنگاہوں میں ایک ا یسا سکوں تھا کہ جو لاری کے کسی مسافر کو نصیب نہ تھا۔ میں نے سوچا کہ زندگی کے متعلق ایک نقطہ نظر بھینس کا بھی ہوتا ہے۔ کالا، کیچڑ میں لت پت، جگالی آمیز لیکن اس نقطۂ نظر میں کس قدر تیقن ہے، کتنا سکون، مجھے شاید کشمیر جا کر بھی یہ آرام نہ مل سکے۔ یہ انگریز با ر بار اپنی نشست پر بیٹھا ہُوا بے چین ہو جا تا تھا۔ سردار کی زرد رو بیوی نقاہت کی ماری ہو ئی اپنے خاوند کے پہلو میں بیٹھی ہوئی اس طرح پینترے بدل رہی تھی، اور اِس طرح منہ بنا رہی تھی جیسے اُسے اسقاطِ حمل ہوا ہو۔ انگریز کا بیرہ ریاست پونچھ کی بولی میں اپنے صاحب کی بہادری کی داستانیں بیان کر رہا تھا، اور نوکرانی خالص ڈوگرے انداز میں اُس پر حاشیہ آرائی کر رہی تھی، لیکن کھدر پوش قیدی سے لے کر رام سنگھ ڈرائیور تک لاری کا ہر فرد بے چین اور کمینہ نظر آتا تھا، زیرِنظر منظر میں اگر کوئی چیز پاک صاف، مقدس اور پُر سکون تھی، تو یہی بھینس جو کسی نیم کی چھاؤں میں جگالی کرتے نظر آجاتی۔ میں نے سوچا کہ آدمی آدمی کے بجائے بھینس ہوتا اور اسی طرح کسی نیم یا جامن کے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر جگالی کرتا، تو زندگی کس قدر آرام اور سکون سے بسر ہوتی، لیکن اب آدمی آدمی نہ تھا، ایک بھینس بھی نہ تھا، بلکہ ایک بیرہ ایک صاحب بہادر، ایک قیدی، ایک سارجنٹ، نتیجہ یہ کہ زندگی کی لاری بھا گی جا رہی ہے اور ہم سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر بے چین اور غیر مطمئن ہیں۔
یکایک گایوں کے ایک وسیع ریوڑ نے لاری کو روک لیا، اور رام سنگھ نے لاری سے اُتر کر گوالے کو دو چا ر طمانچے جڑ دیئے حرام زادہ۔ عین سڑک کے بیچ میں گایوں کو لئے لئے پھرتا ہے، جیسے یہ ڈپٹی کمشنر کا بچہ ہے۔ سالا، بدمعاش۔ گوالا حیران نگاہوں سے رام سنگھ کی طرف دیکھنے لگا۔ کیونکہ اُس نے لاری کو آتے دیکھا تھااور اُسی وقت سے وہ گایوں کے ریوڑ کو ایک طرف کرنے میں مشغول ہو گیا تھا۔ اب اگر چند گائیں اُس کے منع کرنے پر بھی اِدھر اُدھر بکھر جائیں تو اس میں اُس کا کیا قصور تھا۔ گوالے کی نگاہوں میں یہ سب کچھ تھا۔ التجا۔ انصاف کی التجا۔ اور اپنی بے بسی، اور بت چارگی۔ کیونکہ انسانی سماج میں ڈرائیور کا مرتبہ گوالے سے اُونچا ہے اور جو اُونچا ہے وہ اپنے سے کم مرتبہ رکھنے والے کو مارپیٹ سکتا ہے، گالیاں دے سکتا ہے۔ گوالے کی آنکھوں کی مجروح معصومیّت اسی تلخ حقیقت کی آئینہ دار تھی۔
کھدر پوش قیدی رام سنگھ کو صلواتیں سُنانے لگا۔ تم خود ایک مزدور ہو۔ اور ایک غریب کسان پر ظلم کرتے ہو۔ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو۔ ایک حاکم اُف۔ یہ کس قدر جاہل ہے۔ خدا کرے اس سارے ملک پر بجلی گِر جائے۔ دشمن کے بم اسے تباہ و برباد کر دیں۔ اس کا ایک ایک گھر، گھرکی ایک ایک اینٹ، تباہ و مسمار ہو جا ئے۔ کچھ نہ رہے اس ملک کا۔ یہ گا ندھی کا ملک ہے ؟یہ ہندوستان ہے یا پا کستان ہے ؟میرے خیال میں تو یہاں سب اُلّو بستے ہیں۔ قبروں کے اُلّو۔ کھّدر پوش کے منہ سے جھاگ نکلنے لگا اور دونوں سپاہی اسے دوہتڑ کوٹنے لگے۔ ’’یہ اسی طرح گاؤں گاؤں بکواس کرتا ہے اور بغاوت پھیلاتا ہے۔ حرام زادہ!‘‘
کھّدر پوش چلاچلا کر کہنے لگا۔ ’’ہاں ہاں، میں بغاوت پھیلاتا ہوں، مجھے ما ڈالو۔ مجھے جا ن سے ما ر ڈالو۔ میں سچی بات کہتا ہوں۔ اور سچی کبھی کسی کو بُری معلوم نہ ہونی چاہیے۔ ٹھیک ہے نا۔ اور مارو میرے جسم کے قتلے کر ڈالو۔ لیکن خاموش نہیں رہ سکتا۔ میری آواز خاموش نہیں رہ سکتی وہ ہندوستان کے کونے کونے میں گونجے گی۔‘‘
میں اور کرسچین پالیس سارجنٹ ہنسنے لگے۔ کھدر پوش ہماری طرف شعلہ با ر نگاہوں سے تا کتا ہوا بولا۔ ’’کمینو، مجھ پر ہنستے ہو۔ میں اب تک دس بار جیل میں جا چکا ہوں، میری بیوی تپ دِق سے مر گئی ہے، میر الڑکا تعلیم سے محروم رہ کر جیب کترا بن گیا ہے۔ میری زمین قرق ہو کر نیلا م ہو چکی ہے۔ مجھ پر ہنستے ہو، ظالمو، میں اب تمہیں اچھی طرح پہنچاتا ہوں۔ تم کبھی سرمایہ دار بن کر میرے سامنے آتے ہو۔ کبھی بابو بن کر، کبھی بنیا بن کر، کبھی پولیس سارجنٹ بن کر، کبھی لیڈر بن کر۔ لیکن تم ہو وہی۔ میں اب تمہیں۔ اچھی طرح پہچان گیا ہوں۔ خُون چُوسنے والے چمگادڑ….‘‘
پولیس کے سپاہی نے اُس کے منہ پر زور سے ہاتھ رکھ دیا۔ رام سنگھ نے گاڑی کھڑی کر دی، سیالکوٹ شہر کی کچہری سامنے تھی اور ملزم اور سپاہیوں کو یہی اُترنا تھا۔ سپاہی ملزم کو اتارنے لگے۔
نوکرانی بولی۔ ’’کوئی پاگل ہے پاگل۔‘‘
انگریز ہوا باز تیوری چڑھا کر اپنا پائپ سلگانے لگا۔
ساوتری بولی۔ ’’ہائے بھب جی۔ آپ کو یاد ہے اس کچہری کی عمارت ہمارے بابو جی نے بنوائی تھی!‘‘
سپاہی ملزم کو لیے کچہری کے اندر چلے گئے۔ سڑک کی دوسری طرف ایک بڑا سا کھمبا لگا تھا۔ جس پر جلی حروف میں لکھا تھا۔ ’’کشمیر‘‘۔ اور غلاظت سے بھری ہوئی یہ لاری کشمیر کو جانے والی سڑک پر مڑ گئی۔