لال خان

پچھلی کچھ دہائیوں سے ماحولیاتی تبدیلیوں اور آلودگی کے خلاف عالمی سطح پر زور پکڑتی ہوئی مہم میں ماحولیات پر سیاست کرنے والی ’گرین‘ پارٹیاں اور این جی اوز پیش پیش ہیں۔ پاکستان اور دنیا کے دوسرے خطوں میں بڑھتے ہوئے سیلاب، طوفان، جنگلات کی آگ، موسموں کی شدت اور دوسری ’’قدرتی‘‘ آفات انتباہ ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام منافعوں کی ہوس میں نہ صرف انسانیت کو معاشی اور سماجی طور پر روندتا چلا جارہا ہے بلکہ ماحول کو تباہ کر کے سیارے پر سے زندگی کا خاتمہ کردینے کے درپے ہے۔

ماحول کا بگاڑ نہ صرف نسل انسان کے مستقبل کو غیر محفوظ بنا رہا ہے بلکہ روزہ مرہ زندگی کی تلخی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ماضی میں شہری زندگی کی سماجی اور مادی آلائشوں سے پاک تصور کئے جانے والے سرسبز دیہات آج غلاظت اور کوڑے کے ڈھیروں سے اٹے ہوئے ہیں۔ بڑے پیمانے پر جنگلات کا صفایا، صنعتی آلودگی، کیڑے مار ادویات کے بے دریغ استعمال، زرخیز زمینوں پر منصوبہ بندی سے عاری تعمیرات اور نکاس کے نظام کی عدم موجودگی نے دیہاتی طرز زندگی کو ہی مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔

شہروں کی بات کی جائے تو ’’سموگ‘‘ (دھند کی شکل اختیار کرنے والا دھواں) معمول بن چکا ہے۔ آلودگی سے پاک توانائی کے ذرائع میسر ہونے کے باوجود محض منافعوں کے لئے 89 ملین بیرل تیل روزانہ جلایا جارہا ہے، کوئلہ اور گیس وغیرہ اس کے علاوہ ہیں، عالمی توانائی کا 87 فیصد فاسل فیول سے حاصل کیا جارہا ہے اور 40 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ہر سال فضا میں چھوڑی جارہی ہے۔گرین ہاؤس گیسوں کے اس اخراج سے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے۔درجہ حرارت کے لحاظ سے پچھلی صدی کی آخری دو دہائیاں گزشتہ چار سو سال کا گرم ترین عرصہ تھا۔ ’’گلوبل چینج ریسرچ پروگرام‘‘ کے مطابق گزشتہ پچاس سال کے دوران امریکہ کے درجہ حرارت میں دو ڈگری سنٹی گریڈ کا اضافہ ہوچکاہے۔ IPCC کی سالانہ رپورٹ کے مطابق صنعتی انقلاب کے بعد سے فضا میں500 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ ہو چکا ہے، نتیجتاً گزشتہ ایک صدی کے دوران عالمی درجہ حرارت میں ایک ڈگری سنٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے جس سے قطبین کی برف پگھل رہی ہے اور 1870ء کے بعد سے سمندی سطح 8 انچ بلند ہو چکی ہے، ماہرین کے جانب سے اس صدی کے اختتام تک اس میں مزید 23 انچ اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ 2040ء تک قطب شمالی کی برف مکمل طور پر پگھل جائے گی اور دنیا کے بیشتر ساحلی خطے زیر آب آجائیں گے۔

ایک طرف کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار تیزی سے بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف اس گیس کو ری سائیکل کرنے والے جنگلات کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔ دنیا میں کل آکسیجن کا 20 فیصد پیدا کرنے کی وجہ سے ’’دنیا کے پھیپھڑے‘‘ قرار دئیے جانے والے امازون کے جنگلات کو تیزی سے کاٹا جارہا ہے اور صرف 1991ء سے 2000ء تک کے دس سالوں میں امازون کے 172000 مربع کلومیٹر پر سے درختوں کو صفایا کر دیا گیا ہے۔عالمی سطح پر ہر سیکنڈ میں اوسطاً ڈیڑھ ایکڑ جنگل کا خاتمہ کیا جارہا ہے جس سے ماحول کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی نظام بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ جنگلات کی تباہی سے نباتات، حشرات اور جانوروں کی 137 انواع ہر روز معدوم ہورہی ہیں۔

’’منصوبہ بند متروکیت‘‘ (Planned Obsolescence) کا مظہر سرمایہ داری کی تاریخی متروکیت اور پاگل پن کی اہم علامت ہے۔درسی نصاب ہوں یا ذرائع ابلاغ، اس نظام کے دانشور اور معیشت دان ’’منڈی کے مقابلے‘‘ کے تحت صارف کو ملنے والی ’’اعلیٰ کوالٹی‘‘ کی اشیا کا درس دیتے نہیں تھکتے، حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ’’منصوبہ بند متروکیت‘‘ کا ’’بزنس ماڈل‘‘ خاص پر طور پر 1929ء کے مالیاتی کریش کے بعد سے دنیا بھر میں اپنایا گیا ہے جس کے تحت مصنوعات کو ڈیزائن ہی اس طرح کیا جاتا ہے کہ وہ ایک مخصوص عرصے کے بعد خراب ہو کر ناقابل استعمال ہو جاتی ہیں اور صارف کو لامحالہ طور پر دوبارہ منڈی کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ کپڑے، موبائل، کمپیوٹر، بلب، عمارات غیرضیکہ روز مرہ استعمال کی کم و بیش ہر چیز کی پیداوار میں یہ طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ انسانی محنت، خام مال اور قدرتی وسائل کے بے نظیر ضیاں اور بلا ضرورت ماحولیاتی آلودگی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔عالمی سرمایہ داری کا علمبردار جریدہ اعتراف کرتا ہے کہ ’’نائیلون کی جرابیں ’منصوبہ بند متروکیت‘ کی کلاسیکی مثال تھیں۔ یہ جرابیں جلد ادھڑ جاتی تھیں اور صارف کو نیا جوڑا خریدنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے جرابیں بنانے والی کمپنیوں نے لمبے عرصے تک ایسے کسی ریشے کے استعمال پر غور ہی نہیں کیا جو جلدی ادھڑتا نہ ہو۔‘‘

اس نظام کے معذرت خواہان میں تمام تر مسائل کا مدا ’’زیادہ آبادی‘‘ پر ڈال دینے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ یہ مفروضہ سراسر بے بنیاد ہے۔ آج وہ ٹیکنالوجی اور وسائل موجود ہیں کہ دنیا کی موجودہ آبادی سے کہیں زیادہ انسانوں کو تمام تر ضروریات زندگی فراہم کی جاسکتی ہیں۔ امریکہ کی ’’انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی‘‘ کے مطابق  ’’اناج کی موجودہ پیداوار 1931ء میں لینے کے لئے امریکی کسانوں کو 490 ملین ایکڑ اضافی درکار ہوتے۔‘‘ گزشتہ دو سو سالوں کے دوران عالمی جی ڈی پی میں اضافے کی شرح آبادی سے کہیں زیادہ رہی ہے لیکن اس دولت کی تقسیم انتہائی غیر ہموار ہے۔ ضروریات زندگی کی قیمتیں آج کئی گنا کم کی جاسکتی ہیں لیکن اس سے سرمایہ داروں کی شرح منافع پر ضرب لگتی ہے۔’’فوڈ فرسٹ‘‘ نامی تنظیم کے مطابق عالمی سطح پر دس ارب انسانوں کی خوراک پہلے ہی پیدا کی جارہی ہے لیکن بہت سے لوگوں کی جیب میں اسے خریدنے کے پیسے نہیں ہیں!واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ میں کل غذا کا 40 فیصد ہر سال ’’ضائع‘‘ ہوجاتا ہے۔ ’’ضائع‘‘ ہوجانے والی اس خوراک کا بڑا حصہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے گوداموں یا سپر سٹورز کی الماریوں میں پڑا پڑا ’’ایکسپائر‘‘ ہو جاتا ہے یا پھر قیمتیں بلند رکھنے کے لئے دانستہ طور پر ’’ڈمپ‘‘ کر دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اسی امریکہ میں غذائی عدم تحفظ سے دوچار پانچ کروڑ لوگ مضر صحت یا باسی خوراک کھانے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق عالمی سطح پر دو ارب لوگ غذائی عدم تحفظ جبکہ اسی کروڑ شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

ان تمام اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ منافع پر مبنی پیداوار کا موجودہ طریقہ کار کرہ ارض کو زندگی کے لئے ناقابل اقامت بناتا چلا جارہا ہے اور اگر سرمایہ داری کو اکھاڑپھینکا نہیں جاتا تو ماحول کی بربادی کے تباہ کن اثرات مستقبل قریب میں ہی واضح ہونے لگیں گے۔ لیکن ماحولیات کے بچاؤ کے لئے کام کرنے والی تنظیموں اور گروہوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے محض تنقید اور پندو نصائح کے ذریعے یہ گھمبیر مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔جتنی بھی کانفرنسیں اور معاہدے کروا لئے جائیں، سامراجی رہنما ’’ماحول کی حفاظت کے لئے اقدامات‘‘ پر جتنا بھی ’’زور‘‘ دیتے رہیں… جب تک معیشت، سیاست، ریاست اور میڈیا پر مٹھی بھر سرمایہ دار قابض ہیں ماحولیات کی تباہی بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ اس نظام کی قوت محرکہ انسان کی ضرورت یا بھلائی نہیں بلکہ منافع اور شرح منافع کی ہوس ہے۔ تیل سے وابستہ سامراجی اجارہ داریاں ’’سول سوسائٹی‘‘ کی اپیلوں اور وعظ و نصیحت سے متاثر ہو کر ’’ماحول دوست‘‘ بن سکتی ہیں نہ ہی منافع کے ایک ایک روپے کا حساب رکھنے والے سرمایہ دار ’’اچھا‘‘ بن کر کروڑوں اربوں روپے صنعتی فضلے کی صفائی کے آلات اور ’’گرین انرجی‘‘ پر خرچ کرسکتے ہیں۔الیکٹرک کار سے لے کر توانائی کے متبادل ذرائع تک، عالمی معیشت پر کو کنٹرول کرنے والی یہ چند درجن ملٹی نیشنل کمپنیاں ہر اس ریسرچ اور تکنیک کو دبا دیتی ہیں جو ان کے منافعوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔اگر کوئی کارپریشن یا سرمایہ دار ماحولیات کی حفاظت کو مد نظر رکھتے ہوئے پیداوار کرتا بھی ہے تو اسے اپنی شرح منافع کو برقرار رکھنے کے لئے مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا گا اور وہ لامحالہ طور پر منڈی سے باہر ہو جائے گا۔یہ بحیثیت مجموعی پورے نظام کا مسئلہ ہے جو انفرادی اقدامات اور مہمات سے کبھی حل نہیں ہوسکتا۔

فطرت صرف خام مال کے حصول کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ایک پیچیدہ نظام ہے جس کا ایک حصہ خود انسان بھی ہے۔ انسان کی فوقیت یہ ہے کہ وہ ٹیکنالوجی اور ذرائع پیداوار کے ذریعے فطرت پر قابو پانے کی سعی کرتا ہے۔ نسل انسان کی ترقی کی تاریخ دراصل فطرت کو مسخر کرنے کی تاریخ ہے لیکن فطرت کو مسخر کرنا اور اسے مسخ کرنا دو متضاد عمل ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام ٹیکنالوجی کو اس مقام پر لے آیا ہے جہاں انسان کے اقدامات اس سیارے پر سے زندگی کا ہی خاتمہ کرسکتے ہیں۔ یہ بربادی ناقابل احتراز بہرحال نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ معیشت کا یہ نظام کسی شعوری منصوبہ بندی کی بجائے منڈی کی انارکی پر قائم ہے۔حالات متقاضی ہیں کہ اس نظام کو قصہ ماضی بناتے ہوئے سماجی اور معاشی ارتقا کو ایک قدم آگے بڑھایا جائے۔سولر انرجی، ونڈ انرجی، پن بجلی سمیت کئی متبادل طریقے موجود ہیں جن کے ہوتے ہوئے توانائی کے حصول کے لئے ایک لیٹر تیل جلانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ وہ ٹیکنالوجی اور ذرائع موجود ہے جن کے تحت دیرپا اشیائے صرف اور ضروریات زندگی دنیا کے ہر انسان کو فراہم کی جاسکتی ہیں۔ کمی ہے تو منافع کی ہوس سے پاک اس سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کی جو ہزاروں لاکھوں سالوں کی انسانی محنت کی ان حاصلات کو نسل انسان کی ضرورت اور خوشحالی کے لئے بروئے کار لا سکتی ہے۔