پاکستان کو 5 جولائی سے نجات تبھی ملے گی جب یہاں کسی نئے ابھرنے والے 68-69ء کی انقلابی سرکشی کو سوشلسٹ انقلاب کی منزل تک پہنچایا جائے گا۔
پاکستان
روہی: پیاسی صدیوں کا تسلسل
صدیوں کی پیاسی روہی کوہزاروں سال پہلے تو ممکن نہیں تھا مگر اب جدید تحقیق، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور ذرائع کے سبب سیراب اور شاداب کیا جاسکتا ہے۔
نئے پاکستان سے پرانے پاکستان تک
تحریک انصاف کوئی روایتی بورژوا جماعت نہیں بلکہ فسطائی رجحانات رکھنے والا پیٹی بورژوازی اور لمپن بورژوازی کا سیاسی مظہر ہے۔
میہڑ سانحہ: جلتی بستیاں اور بے حس حکمران
یہ ظالم معاشرہ ہے جس کو شعوری طور پر قائم رکھا گیا ہے۔ یہاں عام محنت کشوں کی زندگیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس سماج کے رہنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔
چاغی: یہ کس کا لہو ہے کون مرا؟
پچھلے چند سالوں سے بلوچ نوجوانوں میں ایک نئی سیاسی ہلچل اور بیداری نے جنم لیا ہے جنہوں نے ایک طرف سے پیٹی بورژوا قوم پرست جماعتوں کی مفاد پرستی کو مسترد کیا ہے تو دوسری طرف قومی جبر کے خلاف جدوجہد کے مقدمے کو زیادہ ریڈیکل انداز میں پیش کیا ہے۔
تحریک انصاف کا عروج و زوال
ضرورت ایک متبادل انقلابی پارٹی کی ہے جو مستقبل میں برپا ہونے والے سماجی طوفانوں کو اپنے دامن میں سمو سکے۔
پاکستان: تذویراتی گہرائی کا بیک فائر!
معاشی بحران اور اس خطے کے مخصوص حالات کے ارتقا کے پس منظر میں پاکستانی ریاست اپنی تاریخ کے سب سے گہرے و ہمہ جہت معاشی، سیاسی، سفارتی، ریاستی اور مالیاتی بحرانات کا شکار ہے۔ عدم استحکام اور ہر سطح پر ٹوٹ پھوٹ ایک معمول بن کے رہ گیاہے۔
نئے اور پرانے پاکستان کی کشمکش
عمران خان کی سب سے بڑی صلاحیت یہی ہے کہ جہاں وہ رائی کا پہاڑ بنانا جانتا ہے وہاں وہ اس پہاڑ کی چوٹی پرخود بھی کھڑا ہوجاتا ہے ا ور اپنے حمایتوں کو بھی وہیں جمع کر لیتا ہے۔
پاکستان: ’ہائبرڈ‘ نظام کا بحران
تحریک انصاف کی تین سال اور سات ماہ کی حکومت کا کردار عوام پر حملے، جھوٹ، ناکامی اور پراپیگنڈہ ہی رہا۔ مڈل کلاس کے ایک حصے کی تائید کو چھوڑ کر تحریک انصاف پاکستان کی تاریخ کی ناکام اور ناپسندیدہ ترین حکومت بن چکی ہے۔
طلبہ سیاست کیوں اور کیسے؟
گزشتہ چند برسوں میں ترقی پسند طلبہ کے زبردست احتجاجوں کی بدولت طلبہ یونین ایک دفعہ پھر موضوعِ بحث ضرور بنی ہے۔
یہ قرضِ کج کلاہی کب تلک ادا ہو گا؟
جذباتیت میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے یہ باتیں بہت اچھی لگتی ہیں مگر برسر اقتدار آنے کے بعد ہی اُن کو یہ پتہ چلا کہ پاکستان جیسی پسماندہ اور کمزور معیشت کو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چلانا پڑے تو قرضوں کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
دھوکے کی سیاست
عمران خان کے خلاف پیش ہونے والی متوقع تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ کچھ بھی ہو‘ حقیقت یہ ہے حکمرانوں کی یہ لڑائیاں کسی طور عوام کی نجات کا موجب نہیں بن سکتی ہیں۔
طلبہ یونین بحالی اور حکمرانوں کی منافقت
ایک منظم اور جرات مند طلبہ تحریک نہ صرف طلبہ یونین کو بازور طاقت بحال کروائے گی بلکہ رجعتی طاقتوں کا بھی قلعہ قمہ کرتی جائے گی اور یہی حقیقی معنوں میں طلبہ یونین ہو سکتی ہے۔
مذہبی انتہا پسندی کا عفریت
برطانوی سامراج کے یہ تمام تر جرائم 1947ء میں اُس وقت اپنے عروج کو پہنچے جب انہوں نے جنوب ایشیائی برصغیر کے زندہ جسم کو مذہبی تعصب کی بنیاد پر کاٹ کر دو الگ ملک بنائے۔
مہنگائی ڈائن کھائے جات ہے!
اس اذیت بھری زندگی سے نجات کے حصول کے لیے اسی نظام میں رہتے ہوئے حکمران تبدیل کرنے کی بجائے حالات سرمایہ دارانہ نظام کی تبدیلی کے متقاضی ہیں۔